دکھ-درد

درد ہی درد کی دوا بن جائے

زخم ہی زخمِ دل کا مرہم ہو

فراق

یہ کہہ کر دیا اس نے دردِ محبت

جہاں ہم رہیں گے یہ ساماں رہے گا

نامعلوم

اک دل کا درد تھا کہ رہا زندگی کے ساتھ

اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈھتے رہے

نامعلوم

ابھی کمسن ہیں ، ضدیں بھی ہیں نرالی ان کی

اس پہ مچلے ہیں کہ ہم دردِ جگر دیکھیں گے

فساحت

دل بہلانے کو لوگ سنتے ہیں

دردِ دل داستاں ہو گویا

جلیل

سنتا نہیں ہے کوئی یہاں ، مفلسوں کی بات

ہر شخص میرے شہر میں مصروفِ زر لگے

اشوک ساہنی