خودنمائی کے سلیقے ابھی کم آتے ہیں
آئینہ ہاتھ سے رکھ دیجئے ہم آتے ہیں
عالم فتحپوری
یوں بھی اکثر وہ قادرِ مطلق ، رخ حوادث کے موڑ دیتا ہے
جن کے چہرے بچانا ہوتے ہیں ، آئینے ان کے توڑ دیتا ہے
فسیح اکمل
آئینہ تو خود ہی گردآلود ہے
آئینہ کے سامنے شرمائیں کیا
راشد حامدی
یوں تو آئینہ میں کوئی عیب نہیں
صاف دل ہے بس یہی اک برائی ہے
نامعلوم
اس کو غرورِ حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
اشوک ساہنی