آئینہ یہ تو بتاتا ہے ، میں کیا ہوں لیکن
آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
کرشن بہاری نور
دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
اک جب ذرا گردن جھکائی ، دیکھ لی
نامعلوم
ان آئینوں کو اٹھا کر کمروں سے باہر پھینک دو
بےادب یہ کہہ رہے ہیں ہم پرانے ہو گئے
نامعلوم
ہم نہ کہتے تھے کہ ، دیکھو نہ تم آئینہ
آئینہ بنے بیٹھے ہو ، آئی نہ وہی بات
نامعلوم
آئینہ دیکھ کے ، یہ دیکھ سنورنے والے
تجھ پہ بےجا تو نہیں مرتے ہیں مرنے والے
رشید رامپوری
سامنے وہ آئینہ کے کیا سمجھ کر آ گئے
بےخودی میں آئینہ سے آئینہ ٹکرا گئے
اشوک ساہنی