عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لڑیں ، تو خواب کہاں
میر تقی میر
خواب ہی میں نظر آ جائے شبِ ہجر کہیں
سو مجھے حسرتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ناسخ
اپنے خوابوں کے تعاقب میں کہاں تک جاؤں
فاصلے پاؤں کی زنجیر بھی ہو جاتے ہیں
راشد حامدی
سو کر اٹھے تو خواب کے منظر بکھر گئے
دیوار و در پہ دھوپ کا پہرا ملا مجھے
اشوک ساہنی