تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے
افسر میرٹھی
میری آنکھیں اور دیدار آپ کا
یا قیامت آ گئی ، یا خواب ہے
آسی
اک ناتمام خواب مکمل نہ ہو سکا
آنے کو زندگی میں بہت انقلاب آئے
عندلیب شادانی
لذتِ عمرِ جوانی ، پوچھتے ہو کیا عزیزؔ
آ گیا تھا اتفاقاً نیند کا جھونکا مجھے
عزیز لکھنوی
نیند اس کی ہے ، دماغ اس کا ہے ، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں ، جس کے شانے پر پریشاں ہو گئیں
مرزا غالب
بن جاؤ گر تم خواب میرا
میں آنکھیں عمر بھر نہ کھولوں
اشوک ساہنی