آشیاں-آشیانہ

حادثوں سے جذبۂ تعمیر رکتا ہے کہیں

بجلیاں گرتی رہیں اور آشیاں بنتا رہا

نامعلوم

اب بجلیوں کا خوف بھی دل سے نکل گیا

خود میرا آشیاں مری ، آہوں سے جل گیا

مختار

اس التفاتِ خاص کا اے برق شکریہ!

لیکن چمن میں اور بھی ، کیا آشیاں نہ تھے

اشرف رفیع

یہ کس نے شاخِ گل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی

کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر ، زباں رکھ دی

نامعلوم

باغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا

آشیاں میں نے بنایا تھا بڑی محنت سے

اشوک ساہنی