کبھی ہنسے ، کبھی آنسو بہائے تنہائی
ہزار طرح مجھے آزمائے تنہائی
قمر سنبھلی
ملے گی کوئی مسرت تو جی نہ پائیں گے
کٹی ہے عمر غموں سے نباہ کرتے ہوئے
نامعلوم
وہ خوشیاں ہوں کہ غم ، تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں
عمارت دل کی یادوں سے تری ، آباد رکھتے ہیں
اشوک ساہنی