برق و نشیمن

اب بجلیوں کا خوف بھی دل سے نکل گیا

خود میرا آشیاں میری آہوں سے جل گیا

مختار

دیکھ کر برق کی پریشانی

آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے

خمار

تڑپ رہی ہے جو ابرِ سیاہ میں بجلی

فراق میں یہی نقشہ تھا ہوبہو میرا

مضطر مظفرپوری

کیا مزہ دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ

مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے

ریاض

ثبوت برق کی غارتگری کا کس سے ملے

کہ آشیاں تھا جہاں ، اب وہاں دھؤاں بھی نہیں

اظہر سعید

لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے

الٰہی! یہ گھٹا دو دن تو برسے

داغ دہلوی

بجلی کی تانک جھانک سے تنگ آ گئی ہے جاں

ایسا نہ ہو کہ پھونک دوں خود آشیاں کو میں

جلیل مانکپوری

بجلیاں کوند رہی ہیں کہ تکلم تیرا

برق نے قید میں رکھا ہے تبسم تیرا

اشوک ساہنی