تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے ، بےارادہ اٹھ گئی ہوگی
حسرت موہانی
مسکرا کر اک نگاہِ مست ، سب پر ڈال دو
ہم بھی دیکھیں انجمن میں کتنے اہلِ ہوش ہیں
نامعلوم
ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم ان کی نہیں جاتی
نگاہ نیچی کئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں
امیر مینائی
جھکتی ہے نگاہ اس کی مجھ سے مل کر
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا
جوش ملیح آبادی
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں ، دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں ، کہ ہوں تو ، کسی کی نگاہ میں
امیر مینائی
زمانہ نے لگائیں ہم پہ ، لاکھوں بندشیں لیکن
سرِ محفل مری نظروں نے تم سے گفتگو کر لی
اشوک ساہنی