انگڑائی

دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

جگر

پھر تم اسی ادا سے ، انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

دل لکھنوی

اب کہاں سر مستیٔ عہدِ شباب

زندگی لینے لگی انگڑائیاں

جوش ملسیانی

پھر بناؤ وہی انگڑائی کا منظر جاناں

پھر غزل کہنی ہے محراب سی انگڑائی پر

شہباز ندیم

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے ، اٹھا کے ہاتھ

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئے ، مسکرا کے ہاتھ

نظام رامپوری

اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم ، تری انگڑائی کا

عزیز لکھنوی

ان سے چھینکے سے ، کوئی چیز اتروائی ہے

کام کا کام ہے ، انگڑائی کی انگڑائی ہے

بوم میرٹھی

ہو گیا شہر کھنڈر ، خانۂ دل کی مانند

زلزلہ ہے کہ ، کسی شوخ کی انگڑائی ہے

اشوک ساہنی