حسبِ منشا دلِ پرشوق کی باتوں کا جواب
دے دیا شرم میں ڈوبی ہوئی ، انگڑائی نے
منظر لکھنوی
انگڑائی لے کے اپنا ، مجھ پر خمار ڈالا
کافر نے اک ادا سے ، بس مجھ کو مار ڈالا
مصحفی
سنگ کو موم کی مانند پگھلتے دیکھا
یا ترے جسم کو انگڑائی میں ڈھلتے دیکھا
میر
دل کا کیا حال کہوں ، صبح کو جب اس بت نے
لے کے انگڑائی کہا ، ناز سے ہم جاتے ہیں
داغ دہلوی
اس کا ہر عضو بغاوت پہ اتر آتا ہے
کروٹیں لیتی ہیں جب خواہشیں انگڑائی میں
راشد حامدی
کون انگڑائی ، لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں
عدم
دیکھ کر مجھ کو ، وہ انگڑائی ادھوری ان کی
تیر چلنے بھی نہ پایا تھا ، کماں ٹوٹ گئی
عزیز لکھنوی
یہ قیامت سے بڑی چیز ہے پہچان گیا
ایک انگڑائی میں بس شیخ کا ایمان گیا
اشوک ساہنی