انگڑائی

الٰہی! کیا علاقہ ہے وہ ، جب لیتے ہیں انگڑائی

مرے سینہ میں سب زخموں کے ٹانکے ٹوٹ جاتے ہیں

امیر مینائی

شاخِ گل جھوم کے ، گلزار میں سیدھی جو ہوئی

پھر گیا آنکھ میں ، نقشہ تری انگڑائی کا

شرف لکھنوی

کیف و مستی میں بھی رہتا ہے ، یہ جوبن کا لحاظ

ان کو انگڑائی بھی آتی ہے تو شرمائی ہوئی

امیر مینائی

کون یہ لے رہا ہے انگڑائی

آسمانوں کو نیند آتی ہے

فراق

پستیوں نے جب بھی لیں انگڑائیاں

زلزلوں سے ہل اٹھیں اونچائیاں

فراق

کس قدر توبہ شکن یہ تری انگڑائی ہے

اک قیامت ترے جوبن پہ اتر آئی ہے

اشوک ساہنی